روحانیت (دعا تعویذ)کی طرف میں کیوں متوجہ ہوا؟ Dua Taweez Ki Taraf MeKiyo Mutwajja Huwa

روحانیت 

(دعا تعویذ)کی طرف میں کیوں متوجہ ہوا؟

  حفظ وقرأت کی فراغت 1996میں دارالعلوم غوثیہ رضویہ،حاجی نگر اورنگ آباد سے ہوئی اور دارالعلوم محمدیہ مینارہ مسجد محمد علی روڈ ممبئی سے 2003 ء میں درس نظامی کی تعلیم سے فراغت کے بعد جب خدمت دین متین کے لیے امامت و خطابت کے فرائض انجام دینے لگاتو پورے خلوص کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھائی۔فروغ اہلسنت وجماعت کا ایک بیکراں جذبہ رکھتا تھا اور ابھی بھی ہے یہی وجہ ہے کہ حالات سے بے پرواہ ہوکر فقط خدمت اہلسنت وجماعت کی خاطر تقریباََ تیرہ مساجد کو بد عقیدوں کے قبضے سے نکال کر سنی صحیح العقائد حضرات کے حوالے کیا۔خطابات و بیانات اور شب وروز انفرادی کوشش کرکے ہزاروں افراد کے دلوں میں عشق رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا شمع فروزاں کیا۔ان خدمات کو دیکھتے ہوئے کئی بار جان لیواحملوں کا سامنا بھی کرنا پڑالیکن بفضلہ تعالی وہ وقت بھی آیا کہ بعض مخالفین تومعافی مانگ کر میرے شیدا ہو گئے میرے یہ سارے خدمات صوبہ کرناٹک بالخصوص قصبہ نالوار، تعلقہ چیتاپور ضلع گلبرگہ شریف کے اطراف و اکناف سے منسوب ہیں۔ 
   اس کے بعدجب عام لوگوں سے قریب ہوا تو عوامی مسائل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اس وقت مجھے یہ شدت سے احساس ہوا کہ عوام کے مسائل میں صرف یہی نہیں ہے کہ انہیں دین و سنیت سے قریب کیا جائے،نمازوروزہ،زکوۃ وصدقات وغیرہ کے فضائل اور مسائل بتادئیے جائیں اورانہیں صرف احکام اسلامیہ کا پابند بنانے کی سعی کی جائے بلکہ اس کے ساتھ اس بات کی ضرورت کا بھی احساس ہوا کہ ان کے عائلی،ذاتی مسائل اور ان کی روحانی پریشانیوں کا حل بھی نکالا جائے جس کے ذریعہ وہ دین سے اور بھی زیادہ قریب ہوسکتے ہیں ساتھ ہی اس بات کا بھی احساس ہوا کہ روحانی مسائل کو حل کرنے کے لیے عملیات کے درجنوں کتابیں پڑھنے سے نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے الگ سے کسی استاد کامل کی نگرانی میں مسلسل محنت اور کوشش یا چلہ کشی درکار ہے۔ چنانچہ برسوں کی کوشش کے بعد آخر کار ایک باکمال استاد محترم حضرت صوفی عین اللہ شاہ قادری رحمتہ اللہ علیہ سے زہے نصیب ملاقات ہوئی اور انہیں کی نگرانی میں پورے عزم وحوصلے کے ساتھ اس میدان میں کودپڑا اور ایک طویل عرصے کی محنت ومشقت و چلہ کشی کے بعد بلکہ کئی مہینے فقط چاول شکر کھاکر چوبیس گھنٹے میں صرف چار گھنٹے سوکر بلکہ زبان کو مقفل کرکے دوران عمل تحریری گفتگو کرتے ہوئے بے شمار خواہشات کو ٹھکرانے کے بعد اس میدان میں ایک حد تک کامیابی پاسکا اورپھر میں نے خود کو عوامی روحانی مسائل کے حل کے لیے وقف کردیاساتھ ہی دینی خدمات سے بھی جڑا رہا اور اس کام کے لیے ”روحانی شفا خانہ“کی بنیاد رکھااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا ایک جم غفیر لگنے لگا۔اس درمیان اس بات کو بھی میں نے بڑے قریب سے محسوس کیا کہ صرف علاقائی سطح پر ہی نہیں بلکہ اس کام کی ضرورت عالمی سطح پر ہے اور اس میدان میں بہت سے علما،فضلا و مشائخ کرام آنا چاہتے ہیں لیکن انہیں کوئی مشفق مربی شخص نہیں مل پارہا ہے لہذا اس ضرورت کی تکمیل کے لیے میں نے ”صوفیا روحانی تربیتی سنٹر“کی بنیاد بھی رکھی۔عوامی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ہندوستان کے گوشے گوشے کا دورہ کرکے لاکھوں لوگوں کو روحانی فائدہ پہنچانے کی سعی کی اور انہیں بہت سارے ذاتی مسائل اور پریشانیوں سے چھٹکارا دلانے کی کوشش کی اور الحمدللہ ثم الحمدللہ کافی لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے شفاعطاکی جبکہ سوشل میڈیا کی وساطت سے اور روحانی تربیتی سنٹر کے ذریعہ کئی علما و مشائخ کو اس میدان میں لاکر اس علم میں ماہر بنایااور بہتوں کو اجازت دی اور آج وہ سبھی اس میدان سے جڑ کر عوامی ضرورتوں کی تکمیل میں صبح وشام مصروف ہیں۔ اور آج یہ بندہ حقیر اس میدان میں عوامی خدمات کے ساتھ علما اور اس علم میں دلچسپی رکھنے والے شائقین کے لیے ہروقت حاضر ہے۔

 صوفی طالب اطہر القادری خانقاہ قادریہ دارالشفا۔گلبرگہ شریف،کرناٹک

Post a Comment

Previous Post Next Post